آپ نے اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کی پشت پناہی اور عالم اسلام پر حالیہ برسوں میں کی جانے والی تباہ کن لشکر کشی کا حوالہ دیتے ہوئے مغربی نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں آپ نوجوانوں سے چاہتا ہوں کہ صحیح شناخت اور گہرے تدبر کے ساتھ اور ناگوار تجربات سے سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کے ساتھ باعزت اور صحیح رشتوں کی بنیاد رکھئے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خط کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائيے؛
بِسْمِ ٱللَّـهِ ٱلرَّحْمَـنِ ٱلرَّحِيمِ
مغربی ملکوں کے تمام نوجوانوں کے نام
اندھی دہشت گردی نے فرانس میں جو تلخ سانحے رقم کئے، ان سانحوں نے مجھے ایک بار پھر آپ نوجوانوں سے گفتگو پر مجبور کر دیا۔ میرے لئے یہ افسوس کا مقام ہے کہ گفتگو کی وجہ اس طرح کے واقعات بنیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر دردناک مسائل، چارہ جوئی کی زمین اور ہم خیالی کا میدان فراہم نہ کریں تو دگنا نقصان ہوگا۔ دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی انسان کا رنج و الم اپنے آپ میں تمام نوع انسانی کے لئے اندوہناک ہوتا ہے۔ وہ منظر کہ بچہ اپنے عزیزوں کے سامنے دم توڑ دیتا ہے، ایک ماں جس کے خاندان کی خوشی سوگ میں تبدیل ہو جاتی ہے، ایک شوہر اپنی بیوی کا بے جان جسم اٹھائے کسی سمت بھاگ رہا ہے، یا وہ تماشائی کہ جسے نہیں معلوم کہ چند لمحے بعد اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے جا رہا ہے۔ یہ ایسے مناظر نہیں ہیں جو دیکھنے والے کے احساسات و جذبات کو جھنجھوڑ نہ دیں۔ جس کے اندر بھی محبت و انسانیت کی کوئی رمق ہے، یہ مناظر دیکھ کر متاثر اور رنجیدہ ہوگا؛ خواہ وہ فرانس میں رونما ہوں یا فلسطین و عراق و لبنان و شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے یہی احساسات ہیں اور وہ ان المیوں کو انجام دینے والوں اور ذمہ داروں سے بیزار اور متنفر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے یہ رنج و الم بہتر اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کی بنیاد نہ بنیں تو ان کی حیثییت تلخ و بے ثمر یادوں تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔ یہ میرا نظریہ ہے کہ صرف آپ نوجوان ہی آج کے ناموافق تغیرات سے سبق لیکر مستقبل کی تعمیر کی نئی راہیں تلاش کرنے اور اس انحرافی پیش قدمی کو روکنے پر قادر ہوں گے جس نے مغرب کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ دہشت گردی آج ہمارا اور آپ کا مشترکہ درد ہے۔ لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس بد امنی اور اضطراب کا سامنا آپ نے حالیہ سانحے میں کیا، اور اس رنج و الم میں جسے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے عوام برسوں سے جھیل رہے ہیں، دو بنیادی فرق پائے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عالم اسلام حدود کے اعتبار سے کئی گنا زیادہ وسیع علاقے میں، اس سے کئی گنا زیادہ حجم کے ساتھ اور بہت زیادہ طولانی مدت کے دوران تشدد اور دہشت کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ بد قسمتی سے اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے گوناگوں روشوں سے اور بہت موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئی شخص ہو جسے القاعدہ، طالبان اور اس منحوس سلسلے کی کڑیوں کی تشکیل، انھیں تقویت پہنچانے اور اسلحہ فراہم کرنے میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے کردار کا علم نہ ہو۔ اس براہ راست پشت پناہی کے ساتھ ساتھ، تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے اور اعلانیہ حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے کے باوجود، ہمیشہ مغرب کے اتحادیوں کی صف میں شامل رہے ہیں، جبکہ علاقے میں پنپتی جمہوریت سے نکلنے والے روشن ترین اور پیشرفتہ ترین نظریات کی بے رحمی سے سرکوبی کی گئی ہے۔ عالم اسلام میں بیداری کی تحریک کے ساتھ مغرب کا دوہرا رویہ مغربی پالیسیوں کے تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس تضاد کا ایک اور روپ اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی ہے۔ فلسطین کے ستم دیدہ عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین قسم کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر آج یورپ کے عوام چند روز اپنے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور پرہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں سال سے حتی خود اپنے گھر میں بھی صیہونی حکومت کی انہدامی اور قتل و غارت کی مشین سے محفوظ نہیں ہیں۔ آج تشدد کی کون سی ایسی قسم ہے کہ قسی القلبی کے اعتبار سے جس کا موازنہ صیہونی حکومت کی کالونیوں کی تعمیر سے کیا جا سکتا ہے؟ یہ حکومت اپنے بااثر حامیوں یا ظاہری طور پر خود مختار نظر آنے والے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کسی طرح کی سنجیدہ اور موثر سرزنش کا سامنا کئے بغیر، روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتی ہے، ان کے باغات اور کھیتیوں کو نابود کرتی ہے، یہاں تک کہ انھیں اسباب زندگی کو کہیں منتقل کرنے یا کھیتوں کی فصلیں کاٹنے تک کی مہلت نہیں دیتی۔ یہ سب کچھ عام طور پر عورتوں اور بچوں کی آشکبار آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، جو اپنے افراد خاندان کو زد و کوب ہوتے اور بعض اوقات عقوبت خانوں میں منتقل ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا میں آپ اتنے وسیع پیمانے پر، اس حجم کے ساتھ اور اس تسلسل کے ساتھ انجام پانے والی کسی اور قسی القلبی سے واقف ہیں؟ سر سے پاؤں تک مسلح فوجی کے سامنے صرف اعتراض کر دینے کے جرم میں بیچ سڑک پر ایک خاتون کو گولیوں سے بھون دینا اگر دہشت گردی نہیں تو کیا ہے؟ یہ بربریت چونکہ ایک غاصب حکومت کے فوجی انجام دے رہے ہیں تو کیا اسے انتہا پسندی نہیں کہنا چاہئے؟ یا صرف اس بنا پر کہ یہ تصاویر ساٹھ سال سے ٹی وی کے اسکرینوں پر بار بار نظر آتی رہی ہیں، ہمارے ضمیروں کو نہ جھنجوڑیں!
حالیہ برسوں میں عالم اسلام پر لشکر کشی کہ جس میں بے شمار جانیں تلف ہوئیں، مغرب کی تضاد آمیز روش کا ایک اور نمونہ ہے۔ حملے کا نشانہ بننے والے ممالک نے جانی نقصانات اٹھائے، اس کے علاوہ ان کا اقتصادی و صنعتی انفراسٹرکچر ختم ہو گیا ہے، نمو و ترقی کی جانب ان کی پیش قدمی کا عمل کند ہو گیا ہے، بعض معاملات میں وہ دسیوں سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود گستاخی کے ساتھ ان سے کہا جاتا ہے کہ خود کو مظلوم نہ سمجھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک کو ویرانے میں تبدیل کر دیا جائے، اس کے شہروں اور قریوں کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا جائے اور پھر اس سے کہا جائے کہ براہ مہربانی آپ خود کو ستم دیدہ نہ مانئے! سانحوں کو بھول جانے اور انھیں نہ سمجھنے کی دعوت دینے کے بجائے کیا سچائی سے معذرت کر لینا زیادہ بہتر نہیں ہے؟ ان برسوں کے دوران عالم اسلام کو حملہ آوروں کے دوہرے روئے اور مصنوعی چہروں سے جو رنج پہنچا ہے وہ مادی خسارے سے کم نہیں ہے۔
عزیز نوجوانو! میں امید کرتا ہوں کہ آپ اسی وقت یا مستقبل میں فریب سے آلودہ اس ذہنیت کو تبدیل کریں گے، اس ذہنیت کو جس کا ہنر دراز مدتی اہداف کو پنہاں رکھنا اور موذیانہ اغراض و مقاصد پر ملمع چڑھا دینا ہے۔ میری نظر میں سلامتی و آسودگی قائم کرنے کے سلسلے میں پہلا مرحلہ اس تشدد انگیز فکر کی اصلاح کرنا ہے۔ جب تک مغرب کی سیاست پر دوہرے معیار حکمفرما رہیں گے، جب تک دہشت گردی کو اس کے حامی اچھی اور بری قسموں میں تقسیم کرتے رہیں گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی و اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی، اس وقت تک تشدد کی جڑوں کو کہیں اور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ جڑیں برسوں کی اس مدت میں بتدریج مغرب کی ثقافتی پالیسیوں کی گہرائیوں تک پھیل گئی ہیں اور ایک خاموش اور نامحسوس یلغار کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی ملی و مقامی ثقافت پر ناز کرتے ہیں، ان ثقافتوں پر جو بالیدگی و نمو کے عالم میں سیکڑوں سال سے انسانی معاشروں کو بنحو احسن سیراب کرتی آئی ہیں۔ عالم اسلام بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔ لیکن دور حاضر میں مغربی دنیا پیشرفتہ وسائل کی مدد سے دنیا کی ثقافتوں کو ایک جیسا بنا دینے پر بضد ہے۔ میں دیگر اقوام پر مغرب کی ثقافت مسلط کئے جانے اور خود مختار ثقافتوں کو پست قرار دئے جانے کو ایک خاموش اور انتہائی زیاں بار تشدد مانتا ہوں۔ غنی ثقافتوں کی تحقیر اور ان کے محترم ترین پہلوؤں کی توہین ایسے عالم میں کی جا رہی ہے کہ اس کی جگہ لینے والی ثقافت میں ہرگز جانشینی کی لیاقت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دو عناصر جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہروی نے جو بد قسمتی سے مغربی ثقافت کے بنیادی پہلو بن چکے ہیں، اس کی مقبولیت اور پوزیشن کو خود وہاں تنزل سے دوچار کر دیا ہے جہاں یہ وجود میں آئی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم روحانیت سے گریزاں، تشدد پسند اور فحاشی کی ثقافت کو قبول نہ کریں تو کیا ہم گنہگار ہیں؟ اگر ہم اس تباہ کن سیلاب کا راستہ روک دیں جو نام نہاد آرٹ کی گوناگوں شکلوں میں ہمارے نوجوانوں کی طرف روانہ کیا جاتا ہے تو کیا ہم نے جرم کیا ہے؟ میں ثقافتی رشتوں کی قدر و قیمت کا منکر نہیں ہوں۔ یہ رشتے جب بھی فطری حالات میں اور میزبان معاشرے کے احترام کے ساتھ قائم ہوئے ہیں، ان سے نمو، بالیدگی اور بے نیازی ملی ہے۔ اس کے برخلاف ناہموار اور مسلط کردہ رشتے ناکام اور ضرر رساں ثابت ہوئے ہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ داعش جیسے پست گروہ امپورٹڈ ثقافتوں سے انھیں ناکام رشتوں کی پیداوار ہیں۔ اگر خرابی عقیدے میں ہوتی تو استعماری دور سے پہلے بھی عالم اسلام میں ایسے گروہ نمودار ہوتے۔ جبکہ تاریخ اس کے برخلاف گواہی دیتی ہے۔ مسلمہ تاریخی حقائق سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ایک بادیہ نشین قبیلے کے اندر موجود انتہا پسندانہ اور رد کر دئے گئے نظرئے سے استعمار کے ملاپ نے اس علاقے میں انتہا پسندی کا بیج بو دیا؟! ورنہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا کے اخلاقی ترین اور انسان دوست ترین مکتب فکر سے جس کے بنیادی متن میں ایک انسان کی جان لینے کو تمام بشریت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہو، داعش جیسا کوڑا باہر آئے؟
دوسری جانب یہ سوال بھی کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جو یورپ میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں فکری و نفسیاتی پرورش پائی، اس قسم کے گروہوں کی جانب کیوں مائل ہو رہے ہیں؟ کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ کچھ افراد جنگ زدہ علاقوں کا ایک دو سفر کرکے یکبارگی اتنے انتہا پسند بن جائیں کہ اپنے ہی ہم وطنوں پر گولیوں کی بوچھار کر دیں؟ تشدد سے پیدا ہوئے آلودہ ماحول میں پوری عمر فاسد ثقافتی تغذیہ کی تاثیر کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں جامع تجزیہ کرنا چاہئے، ایسا تجزیہ جو سماج کی پنہاں اور نمایاں آلودگیوں کا احاطہ کرے۔ شاید صنعتی و اقتصادی ترقی کے برسوں میں عدم مساوات اور بعض اوقات قانونی و ساختیاتی تفریق کے نتیجے میں مغربی سماجوں کے کچھ طبقات کے اندر بوئی گئی گہری نفرت نے ایسی گرہیں ایجاد کر دی ہیں جو وقفے وقفے سے اس بیمار شکل میں کھلتی ہیں۔
بہرحال آپ ہی کو اپنے سماج کی ظاہری پرتوں کو شگافتہ کرکے گرہوں اور کینوں کو تلاش اور ختم کرنا ہے۔ خلیج کو اور گہرا کرنے کے بجائے اسے پاٹنا چاہئے۔ دہشت گردی سے مقابلے میں سب سے بڑی غلطی عجلت پسندانہ رد عمل ہے جو موجودہ فاصلوں کو اور بڑھاتا ہے۔ ہیجان اور جلدبازی میں کیا جانے والا ہر اقدام جو یورپ اور امریکا میں سکونت پذیر مسلم برادری کو جس میں دسیوں لاکھ فعال اور ذمہ دار انسان شامل ہیں، الگ تھلگ، ہراساں اور مضطرب کرے، ماضی سے بھی زیادہ انھیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرے اور سماج کے اصلی دھارے سے دور کر دے، وہ نہ صرف یہ کہ مشکل کا حل نہیں ہے بلکہ فاصلوں میں مزید گہرائی اور کدورتوں میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ سطحی اور انتقامی تدابیر، بالخصوص اگر اسے قانونی جواز بھی دے دیا جائے، کا نتیجہ موجودہ پولرائیزیشن میں مزید اضافے اور مستقبل کے بحرانوں کا راستہ ہموار ہونے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قانون وضع کئے گئے ہیں کہ جو شہرویوں کو مسلمانوں کی جاسوسی کی ترغیب دلاتے ہیں۔ یہ برتاؤ ظالمانہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لا محالہ (خود ظالم کی طرف) پلٹ کر آنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان اس ناقدری کے مستحق نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بخوبی پہچانتی ہے۔ اس دور میں بھی جب اہل مغرب اسلامی سرزمین میں مہمان بن کر آئے اور صاحب خانہ کی دولت پر ان کی نگاہیں گڑ گئیں اور اس دور میں بھی جب وہ میزبان تھے اور انھوں نے مسلمانوں کی فکر و عمل سے استفادہ کیا، اکثر انھوں نے مہربانی اور رواداری کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔ بنابریں میں آپ نوجوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک صحیح شناخت اور گہرے ادراک کی بنیاد پر اور ناگوار تجربات سے سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کے ساتھ صحیح اور باعزت رشتے کی داغ بیل رکھئے۔ ایسا ہوا تو وہ دن دور نہیں جب آپ دیکھیں گے کہ اس نتیجے کی بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت اپنے معماروں کے سروں پر اعتماد و اطمینان کا سایہ کئے ہوئے ہے، انھیں تحفظ اور آسودگی کی حرارت عطا کر رہی ہے اور روئے زمین پر تابناک مستقبل کی امیدوں کی روشنی بکھیر رہی ہے۔
سید علی خامنهای
۸ آذر ۱۳۹۴ (ہجری شمسی مطابق 29 نومبر 2015)